Friday 30 August 2013

چار کورین خواتین نے پاکستانی چوٹی سر کر لی


کورین ٹیم کا ٹرینگو ٹاور کے سامنے ایک انداز۔— ڈان فوٹو
کوہ پیمائی کی ایک تنظیم کے نمائندے حامد حسین نے بتایا کہ جم سوک کیم کی قیادت میں می سُن چائی، می سُن ہان اور جن ہا لی نے ٹرینگو ٹاور نامی چوٹی کو سر کرنے کی مہم چھبیس جولائی سے شروع کی تھی لیکن خراب موسم کی وجہ سے انہیں چار اگست کو واپس بیس کیمپ آنا پڑا۔
کورین ٹیم نے موسم صاف ہونے کے بعد آٹھ اگست کو دوبارہ اپنی مہم کا آغاز کیا اور وہ بائیس اگست کی صبح چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب رہے۔
خیال رہے کہ 2006ء میں ‘بے نام ٹاور’ کے نام سے مشہور اس چوٹی کو سلووینیا کی بیس خواتین کوہ پیما سر کر چکی ہیں۔
ٹیم کی سربراہ کیم نے ڈان سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے چوٹی سر کرنے کے لیے سب سے مشکل ‘جرمن’ راستے کا انتخاب کیا۔
ٹیم میں شامل چاروں کورین خواتین کو کوہ پیمائی کا تقریباً بیس سالہ تجربہ ہے۔
سینتالیس سالہ کیم کوریا میں کوہ پیمائی کی جانی مانی انسٹرکٹر ہیں۔
انہوں نے 1989ء میں کوہ پیمائی کرنا شروع کی اور وہ اب تک ایلپس، امریکا، کینیڈا اور انڈیا میں متعدد چوٹیاں سر کر چکی ہیں۔
کیم نے 1993ء میں کورین سپورٹس کلائمبنگ میں انعام جیتنے کے علاوہ 1999ء میں ایکس گیمز میں دوسرا انعام جیتا تھا۔
اسی طرح، کوریا میں ایک دکان پر کام کرنے والی می چائی نے 2000٫01٫02 کے کورین آئس کلائمبنگ گیمز میں پہلا انعام اور 2007ء کے کورین ایڈ کلائمبنگ فیسٹیول میں دوسرا انعام حاصل کیا۔
می چائی اب تک امریکا، ایلپس اور آرجنٹائن میں مختلف چوٹیاں سر کر چکی ہیں۔
اکتالیس سالہ می ہان بھی ایک کلائمبنگ انسٹرکٹر ہیں۔ انہوں نے 2010ء کے کورین ایڈ کلائمبگ گیمز میں پہلی اور کورین آئس کلائمبنگ گیمز 2009٫11 میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
ہان آسٹریلیا، امریکا، چلی، ارجنٹائن، ایلپس میں کئی چوٹیاں سر کر چکی ہیں۔
اڑتیس سالہ لی اس ٹیم کی سب سے کم عمر کوہ پیما ہیں۔
نرسنگ کے شعبے سے وابستہ لی نے 1998ء میں کوہ پیمائی شروع کی۔ انہوں نے بھی ٹیم کی دوسری ارکان کی طرح کوریا میں کئی انعام اپنے نام کر رکھے ہیں۔
کورین ٹیم نے بلتستان کی غریب لوگوں کے لیے خیراتی کام بھی شروع کر رکھا ہے۔
کیم نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ہم ہر سال پاکستان کے غریب عوام کے لیے کپڑے ، جوتے اور دوسری امدادی اشیاء بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ یہ کام سالوں تک چلتا رہے گا

No comments:

Post a Comment