Thursday 2 May 2013

برما میں نسلی فسادات کی نئی لہر


برما میں مذہبی فسادات کی نئی لہر پھوٹ پڑی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ دارالحومت رنگون کے قریبی قصبے آوکھان میں بدھ مت کے بلوائیوں نے مسلمانوں کی مساجد اور جائیدادوں پر حملہ کر دیا۔

 برمی صدر کے ترجمان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر کہا ہے کہ حالات اب قابو میں ہیں۔ ترجمان نے فیس بک پر جاری ہونے والے پیغام میں کہا ہے کہ آوکھان میں فسادات کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک خاتون حادثاتی طور پر بدھ بھکشو سے ٹکرائی اور ٹکر کے نتیجے میں بھکشو کا کشکول زمین پر گر گیا۔

صدارتی ترجمان کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو مُنتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ فسادات کے دوران کچھ دکانوں کو نقصان پہنچا لیکن کوئی بھی عمارت جلائی نہیں گئی۔ پولیس اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ کچھ مظاہرین نے مسجد پر بھی پتھراؤ کیا۔
برما میں مسلمانوں اور بُدھوں کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ مسلمانوں اور بُدھوں کے درمیان تشدد کے واقعات برما کی رخائن ریاست میں گذشتہ سال جون میں شروع ہوئے۔
ادھر پیر کو برما میں سرکاری کمشنر نے 2012 میں ہونے والے فسادات کو خطرناک ترین قرار دیا تھا اور ریاست رخائن میں سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد دوگنی کرنے کی تجویز دی ہے۔ گزشتہ سال مغربی ریاست رخائن میں ہونے والے نسلی فسادات میں 190 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً ایک لاکھ افراد کو نقل مکانی کرنا پڑی تھی۔ رواں برس مارچ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سرکاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان روہنگیا آبادی اور بدھ مت کے پیروکاروں کی آبادیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے کا عمل جاری ہے ۔ حکومت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ نسلی فسادات کے خاتمے کا یہ طویل مدتی حل نہیں ہے۔
برما میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی حکومت نے شہریوں کا درجہ بھی نہیں دیا ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔
ادھر برما کی حزبِ اختلاف کی رہنما آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ بدھ اکثریت کے ملک برما میں مسلمانوں کو زیادہ سکیورٹی ملنی چاہیے۔

No comments:

Post a Comment